Friday, March 28, 2014

RUDAD OF OUR RESEARCH ON RELATIONSHIP OF LAHORE NATIVES , WITH PEOPLE OF OTHER PROVINCES.(IN URDU FONT)



ہماری ریسرچ کی روداد

یار علی کہاں ہے ؟ جلدی آ دیر  ہو رہی ہے۔حبیب نے فون پر چھوٹتے ہی کہا۔
اچھایار  آ رہا ہوں، بس  ایک منٹ ناشتہ کر لوں۔ میں نے جواب دیا۔
یار،تو ہمیشہ کی طرح لیٹ ہے،نایاب اور مہک ہمارا انتظار کر رہے ہوں گے۔
اچھا  یار بس ایک منٹ میں آیا، یہ کہہ کر میں نے کال کاٹ دی۔


ان باتوں کا پس منظر کچھ یوں تھا کہ پنجاب یونیورسٹی سے ہمارے گروپ کو یہ اسائنمنٹ ملی تھی کہ چاروں صوبوں کے لوگوں کو مختلف تناظر میں پرکھیں ، آیا کہ یہ مختلف صوبوں کے لوگ آپس میں گھل مل کر رہتے ہیں یا ان کے بیچ ان دیکھی دیواریں حائل ہیں۔جب یہ لوگ اپنے صوبے سے دوسرے صوبے میں جاتے ہیں توکیا انہیں   اپنی زبان ، لہجے، رسم و رواج  یا حلیے میں فرق  کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا نہیں۔ اگر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ اس سے کیا اثر قبول کرتے ہیں۔ہم نے یہ بھی جاننے کی توشش کی کہ کیا ایک صوبے کے لوگوں کا دوسرے صوبے کے لوگوں کے ساتھ رویہ تزھیک آمیز ہوتا   ہے یا  نہیں۔

ان سب سوالات کے جوابات جاننے کیلیے ہم نے  یہ لائحہ عمل ترتیب دیا کہ ہم لاہور کی مختلف  پر رونق جگہوں  مثلا شاہی قلعہ،  بادشاہی  مسجد ، مینار پاکستان،ریلوے اسٹیشن،ائر پورٹ  وغیرہ   پر جائیں گے  اور اس کے ساتھ ساتھ  گرلز ہوسٹل ، بوائز  ہوسٹل ، نرسنگ ہوسٹل  اور  مختلف ہسپتا لوں میں  جا کر بھی اس بارے میں سوال کریں گے۔اس ریسرچ رپورٹ سے جہاں ہماری معلومات میں خاطر خواہ اضافہ ہوا، وہاں اس سے یہ بھی فائدہ ہوا کہ دوسرے صوبے سے  لاہور آئے  ہوئے لوگوں کی مشکلات  اور مسائل  جاننے کا  موقع ملا۔یہ بات یہاں  نہایت تکلیف دہ تھی کہ دوسرے شہروں سے لاہور  آئے طالب علموں کی کثرت نے یہ شکایت  کی کہ لاہور والوں کا  ان سے رویہ تزھیک آمیز ہوتا ہے اور وہ ان سے دوستی کرنے میں دلچسبی نہیں لیتے۔

اس ریسرچ کو باقاعدہ شروع کرنے سے پہلےمیں  نے اپنے گروپ ممبرز کے ساتھ میٹنگ کی ،جس میں یہ سارا مندرجہ بالا  لائحہ  ترتیب دیا  گیا تھا۔اس ریسرچ کو ہم نے یونیورسٹی اسٹودنٹس سے شروع کرنے کا ارادہ کیا اور اس مقصد کیلیے سب سے پہلے  پنجاب  یونیورسٹی گئے۔وہاں ہماری  ملاقات سب سے پہلے سائرہ انور سے ہوئی۔ سائرہ انور کا تعلق اوکاڑہ  سے ہے اور  وہ آئی بی آئی ٹی کے  ڈپارٹمنٹ  میں زیر تعلیم ہیں۔سائرہ نے ہمیں بتایا کہ دوسرے صوبوں کے لوگوں سے بات چیت کرتے وقت انہیں اتنا مسلئہ تو  نہیں ہوتا لیکن وہ اس بات کا خیال ضرور رکھتیں ہیں کہ لاہور والوں سے اتنا فری نہ ہوا  جائے۔سائرہ نے بتایا کہ اوکاڑہ میں لڑکیاں  لاہور کی طرح آزاد  دیتے  وقت انہیں ماحول  اور لہجے کے فرق کی وجہ سے کئی  مشکلات کا سامنا کرنا    presentation خیال نہیں ہیں ۔سائرہ نے مزید بتایا پڑتا ہے ، اس لیے وہ اکثر اپنی بات کا مطلب سمجھانے میں ناکام رہتی ہیں۔اور اس وجہ سے ان پر اکثر طنز بھی کیا جاتا ہے۔

اس کے  بعد پنجاب یونیورسٹی میں  ہماری ملاقات  فیصل آباد کے رہائشی بلال حسین  سے ہوئی۔انہوں نے لاہور یوں کے متعلق اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہوئے کہا کہ لاہوری بہت مطلب پرست ہوتے ہیں اور دوسرا  یہ کہ لاہور  میں  بہت  فحاشی  پھیلی ہوئی ہے۔بلال نے  مزید بتایا کہ وہ باہر والوں سے دوستی کے قائل نہیں ہیں۔
پنجاب یونیورسٹی میں ہی زیر تعلیم انعام ، جن کا تعلق ننکانہ سے ہے، نے ہمیں بتایا کہ لاہور کے لوگ مادہ پرست ہیں۔وہ   سیرت نہیں  صرف صورت دیکھتے ہیں۔انعام نے مزید بتایا کہ وہ جیسا دیس ،ویسا بھیس کے قائل ہیں اور کہیں بھی جاتے ہیں تو وہاں کے مقامی لوگوں جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ ننکانہ اور لاہور کے لب و لہجہ میں بہت فرق ہے،اسی وجہ سے انہیں اپنی بات  سمجھانے میں  دشواری پیش آتی ہے۔
اس کے  بعد ہم حامد علی سے ملے جن کا تعلق پاکپتن سے ہے۔انہوں نے بتایا کہ لاہور  والے اپنے اوپر بڑا فخر محسوس کرتے ہیں اور ہم پر طنز  کرتے ہیں۔اس وجہ سے  ان  کا مورال ڈاون  ہو جاتا ہے اور مایوسی انہیں گھیر لیتی ہے۔حامد نے بتایا کہ لاہور والوں کی نسبت دوسروں شہروں کو لوگ ان کیلیے زیادہ اچھے دوست ثابت ہوتے ہیں۔حامد نے یہ بھی بتایا کہ پاکپتن میں لاہور کی نسبت ماحول بیت سادہ  ہے۔
ان  چند سٹوڈنٹس سے بات کرنے کے بعد ہم نے غور کیا کہ اب تو ہمارے پیٹ میں چوہے ڈور ہیے ہیں۔ہم نے فوراَ  ماس کمیونیکیشن  کے ڈپارٹمنٹ کی کنٹین کا رخ کیا تا کہ کچھ پیٹ پوجا کی جا سکے۔میں نے اور حبیب نے  منیو دیکھ کرسینڈوچ  اور بوتل منگوائی  جس کا بل بڑی فراخ دلی  سے حبیب نے ادا کیا، جس پر مجھے آج تک حیرت ہے  ۔امید کی جا سکتی ہے کہ شاید اس دن حبیب کو خواب میں حاتم طائی نظر آیا ہو  گا۔
نایاب اور مہک کو ہم نے گرلز  ہوسٹل بھیج رکھا تھا۔
سینڈوچ کھاتے ہوئے ہماری نظر کچھ "پردیسی" چہروں پر پڑی،تو ہم نے سوچا کہ ان سے بھی بات کر لی جائے۔
السلام علیکم !
میں نے جاتے ہی سلام کیا۔
وعلیکم السلام!
سلام کا جواب دینے کے بعد وہاں بیٹھے تین لڑکوں نے کھوجتی نظروں سے ہمارا  جائزہ لیا۔
پھر میں نے اپنا تعارف کرایا اور اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو وہ خوشدلی سے بات کرنے پر آمادہ ہو گئے۔
وہاں  ہماری بات  طاہر ہنجرہ سے ہوئی ۔
انہوں نے  ہمیں بتایا کہ ان کی عمر اکیس سال ہے۔ان کے مطابق انہیں        یہ بات  بہت اچھی ہے کہ حافظ آباد کے  برعکس  لاہور میں ذات پات کاتعصب نہیں  ہے  اور سب مل جل کر رہتے ہیں۔طاہر نے مزید بتایا کہ وہ چاہتے ہیں کہ لاہور میں بھی حافظ آباد کی   تہذیب  کو فروغ ملے تاکہ اگر  کوئی حافظ آباد سے یہاں آئے تو اسے یہاں اجنبیت محسوس نہ ہو۔انہوں نے مزید بتایا کہ لہجہ کی وجہ سے انہیں مسائل تو درپیش رہتے ہیں لیکن اس سے انہیں لاہور کی تہذیب کو قریب  سے جاننے کا موقع مِلا ہے۔طاہر نے اب اپنے لہجے کو یکسر  تبدیل کر لیا  ہے،اب انہیں دیکھ کر کوئی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ وہ لاہور سے باہر کے ہیں۔
طاہر نے ان سب باتوں کے بعد ہمیں ایک ایسی بات بتائی کہ میں  کی ششدر رہ گیا ۔میں ہونقوں کی طرح اس کا منہ دیکھ رہا تھا۔
میں نے حبیب کو دیکھا،  یہ بات سن کر اس کا  بھی برا حال تھا۔ اس کا منہ کھلا ہوا تھا اور اس کی آنکھیں الّو کی طرح گول  ہو  گئی تھیں۔ میں نے جلدی سے حبیب کا ہاتھ پکڑا اور ادھر سے ڈور  لگا دی۔ان کے بلند قہقے دور تک ہمارا پیچھا کرتے رہے۔"عزت بچی سو لاکھوں پائے۔۔۔


 باہر  آ کر ٹائم دیکھا تو کلاس لیٹ ہوئی جا رہی تھی۔ میں نے اور حبیب نے جلدی سے باہر آ کر گاڑی نکالی  اور نایاب اور مہک کے پاس جا کر انہیں لفٹ کی آفر کی۔
لیکن  انہوں نے ہمیں نا محرم قرار دیتے ہوئے ہمارے ساتھ سفر کرنے سے صاف انکار کر دیا کہ کب دو نامحرم اکیلے بیٹھے ہوں تو تیسرا ان میں شیطان ہوتا ہے
لیکن ہم اکیلے نہیں ، ہم تو دو دو ہیں ۔
ہم سراپا احتجاج تھے۔
وہی تو۔۔۔ پھر گاڑی میں دو شیطان ہوں گے نا ، ایک  حبیب اور نایاب کے ساتھ ، دوسرا میرے اور آپکے کے ساتھ۔
مہک  نے جواب دیا۔
اوہ، ۔۔اچھا ۔۔، میں ۔۔۔جاتا ،ٹھیک ۔۔پھر  ملیں گے ۔۔۔۔
میرے منہ سے بےربط جملے نکلنے لگے۔
اس میتھا میٹیکل دلیل نے میرے چودہ طبق روشن کر دیے تھے ۔ میں  نے اکیلے جانے میں ہی عافیت سمجھی۔
  کچھ عجب نہیں تھا کہ ان دونوں کے ساتھ  جاتے ،تو یونیورسٹی پہنچ کر ہم بھی بہکی بہکی باتیں کرنے لگ جاتے۔۔۔
لیکن ایک بات آج میرے سمجھ میں آگئی تھی کہ آخر ہماری کلاس میں ایک تھائی تعداد شیطانوں کی کیوں ہیں۔۔۔۔J



کلاس ختم ہونے کے بعد ہم سارے ڈسکشن ہال میں آ گئے،تاکے اپنی اپنی ریسرچ شیئر کر سکیں۔
نایاب اور مہک نے بتایا کہ ان کی پہلی ملاقات ایسی لڑکی سے ہوئی جو کہ بہت ہی ریزرو تھی۔ حتی کہ صحیح طریقے سے بات بھی کر رہی تھی۔ اس کے اندر ایک ڈر چھپا ہوا تھا ، جو کسی سے بھی بات کرنے میں اس کیلیے ایک بہت بڑی رکاوٹ تھا۔
سبز آنکھوں اور سرخ و سفید چہرے والی اس لڑکی کا نام  انعم تھا۔
انعم پنجاب یونیورسٹی  سے ایم-بی-اے کر رہی ہے۔اس کی عمر  اکیس سال اور تعلق رحیم یار خان سے ہے۔انعم  کا پس منظر سرائیکی ہے  جو  کہ اس کا ناکردہ گناہ بن چکا ہے۔
سرائیکی لب و لہجہ کی وجہ سے  اپنی ساتھی سہلیوں کے طنز و مزاح کا شکار  انعم ،اپنا اعتماد کھو چکی ہے۔
اس کاسرائیکی لب و لہجہ اسے احساس کمتری کا شکار کر کے اس کی صلاحیتوں کو  گھن کی طرح کھا رہا ہے۔
انعم سے بات اس کی  روم میٹ کو توسط سے ہو رہی تھی، کیونکہ  چپ سی ، گھبرائی ہوئی انعم ہماری باتوں کا بلکل بھی جواب نہیں دے پا رہی تھی۔ایسا لگتا تھا کہ وہ ابھی رو دے گی۔انعم کی روم میٹ نے بتایا کہ انعم   یونیورسٹی میں بھی بہت گھبرائی ہوئی رہتی  ہے اور کسی سے بات نہیں  کرتی۔ اس وجہ سے اسے پڑھائی میں بھی بھت مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔لیکن اسے امید ہے کہ انعم جلد ہی اپنی تمام کمزوریوں   پر قابوپا لے گئ۔

نایاب اور مہک نے انعم کے بعد  فریحہ کے متعلق بتایا۔فریحہ      کا تعلق ناروال    سے ہے اور لاہور کالج سے انہوں نے ایم-ایس-سی سائکالوجی کی ہوئی ہے۔
فریحہ نے بتایا کہ ان کی اور لاہور کی ثقافت میں بہت کم  فرق ہے۔انہوں نے اس بات کی تائید کی کہ لاہور کے لاگ زندہ دل ہیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ اپنے علاقے پر فخر محسوس کرتی ہیں۔ ان  کی دعا ہے کہ ہر شہر کو لوگ آپس میں رنگ و نسل کے اختلافات بھلا کر ایک ہو جاہیں۔
فریحہ کی بات سننے کے بعد ہم نے اگلے دن کا لائحہ عمل بنایا ۔طے یہ ہوا کہ کل ہم لوگ ایر پورٹ ، شاہی قلعہ  اور عجائب گھر جائیں گے۔
واپس کلاسوں کی طرف جاتے ہوئے حبیب نے مجھے مخاطب  کیا ۔
یار علی !
جی بولو۔
یار کل ٹائم سے آ جاہیں پلیز۔ حبیب نے لجاجت  سے کہا۔
ہاں یار ، کیوں نہیں۔میں پورے ٹائم پر آ جاوں گا۔
گھر جا تے ہوئے میں یہی سوچ رھا تھا کہ ، کیا میں یہ وعدہ وفا کر بھی پاوں گا   یا ہمیشہ کی طرح لیٹ ہی آوں گا ۔۔۔
 

صبح اٹھتے ہی میں نے گھڑی دیکھی تو 9 بج چکے تھے۔ دس بجے کا ٹائم طے ہوا تھا کہ سب دس بجے ائرپورٹ پر موجود ہوں۔ میں جلدی سے اٹھا برش کیا۔ ابھی ناشتہ کر ہی رہا تھا کہ حبیب کا فون آ گیا۔
علی صاحب! کہاں ہو؟ حبیب نے اپنے مخصوص انداز میں پوچھا
یار ناشتہ کر رہا ہوں۔ میں نے جواب دیا
جلدی کرنا یار۔ وہ منمنایا
نا نا کرتے ہوئے بھی مجھے گھر سے نکلتے ہوئے ساڑھے نو ہو گئے۔ اس دوران حبیب کے دو فون اور لا تعداد ایس ایم ایس آ چکے تھے۔ ائرپورٹ پہنچتے پہنچتے ہمیں گیارہ بج چکے تھے۔ہمیشہ کی  طرح ہم اس بار بھی لیٹ تھے۔ میرا خیال تھا اس بار ہمیں ان دونوں سے کھری کھری سننا پڑیں گی ۔ لیکن ہمیشہ کی طرح سرد لہجے  اور سپاٹ چہرے کے ساتھ ہمارا استقبال کیا گیا۔
مجھے افسوس ہے کہ ہم کچھ لیٹ ہو گئے۔ حبیب نے معذرت کرتے ہوئے کہا
ارے کہاں! ابھی تو پانچ منٹ باقی ہیں۔ آپ تو آج جلدی آ گئے ہو۔ طنزیہ لہجے میں جواب آیا
خیر جلدی سے ہم نے کام شروع کیا۔ سب سے پہلے ہماری بات شیخوپورہ کے رہائشی محمد زماں سے ہوئی۔ انکی عمر 24 سال تھی اور وہ ٹیکسی ڈرائیور تھے۔ انہوں نے بتایا کے لاہور کی ثقافت انکے شہر کی نسبت کافی جدید ہے۔ انکا کہنا تھا کہ انہیں لاہور کے زندہ دل اور خوش اخلاق لوگ بہت پسند ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی دوسرے صوبے میں جاتے ہوئے  وہ اپنے تشخص برقرار رکھتے ہیں۔ انہوں نے شکایت کی کہ لاہور کی پولیس انکی وزیراعلیٰ والی پیلی ٹیکسی کی وجہ سے بہت تنگ کرتی ہے۔ انہوں نے یہ درخواست بھی کی کہ انکے مسئلے کو اٹھایا جائے تاکہ انہیں اس اذیت سے چھٹکارہ ملے۔
لاہور ائرپورٹ پر چند اور لوگوں کے ساتھ بات کرنے کے بعد ہم ریلوے اسٹیشن گئے وہاں پر ہماری تین بہن بھائیوں سے بات ہوئی جو کراچی یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔ وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے جب ہم نے مداخلت کی۔ انہوں نے ہمارا مدعا جان کر خوش اخلاقی سے ہمارا استقبال کیا۔ انہوں نے بتایا کہ لاہور کے لوگ انہیں درمیانے اچھے لگتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لاہور میں انہیں اپنے علاقے کی وجہ سے لسانی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ اس سے رنجیدہ نہیں ہیں۔ انہوں نے شکایت کی حکومت انکے علاقوں کی نسبت لاہور میں زیادہ کام کرا رہی ہے ۔ اس وجہ سے کراچی نسلی اور لسانی تعصبات کا شکار ہے۔اس گفتگو کے بعدہم نے ان سے شکریہ کے ساتھ اجازت طلب کی۔
مجموی طور پر ہم سے ائرپورٹ، ہسپتال، عجائب گھر، ریلوے اسٹیشن، نرسنگ ہاسٹل اور شاہی قلعہ وغیرہ سے کراچی، گوجرانوالہ، لیہ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، حافظ آباد، پتوکی، سیالکوٹ، فیصل آباد، نارووال، سرگودھا،  شیخوپورہ، کوہاٹ، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، ننکانہ اور پاکپتن کے لوگوں نے بات کی۔ اسکے علاوہ ہماری چند غیر ملکی لوگوں سے بھی بات ہوئی۔ جن میں برازیل اور چائنہ کے لوگ شامل تھے۔
 مجموعی طور پر جو نتیجہ سامنے آیا وہ یہ تھا:
لباس: 
50٪ لوگوں کا کہنا تھا کہ ان کے علاقے اور لاہور میں لباس کا بہت زیادہ فرق ہے
25٪لوگوں کی رائے میں لباس کا فرق بہت کم ہے اور تقریباً اتنے ہی لوگوں کے مطابق لباس کا بالکل کوئی فرق نہیں ہے۔

ثقافت:
16٪ لوگوں کا کہنا تھا کہ انکی اور لاہور کی ثقافت میں بہت زیادہ فرق ہے۔
54٪  کے خیال میں ثقافت کا کوئی زیادہ فرق نہیں ہے جبکہ 30٪  کے خیال میں کوئی فرق نہیں ہے۔
تعصب:
49٪ لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں لاہور میں علاقائی تعصب  اور خوف و ہراس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
51٪  کا کہنا تھا کہ انہیں کسی قسم کے تعصب کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
جدیدیت:
57٪  کے خیال میں لاہور میں بہت زیادہ جدیدیت پھیلی ہوئی ہے۔
27٪  نے اسے درمیانہ کہا جبکہ16٪  کے خیال میں لاہور میں جدیدیت بہت کم ہے۔
احساس کمتری:
16٪   لوگوں نے کہا کہ انہیں لاہور میں بہت زیادہ احساس کمتری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
32٪  لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں ہلکی سی احساس کمتری محسوس ہوئی۔ جبکہ 52٪  لوگوں نے کہا کہ انہیں بالکل بھی احساس کمتری محسوس نہیں ہوا۔
فلاح و بہبود کے کام:
88٪ لوگوں نے کہا کہ حکومت انکے شہر میں لاہور کی نسبت کم کام کراتی ہے۔
جبکہ 12٪ لوگوں نے اس بارے میں کسی پریشانی کا ذکر نہیں کیا
ثقافت پر فخر:
73٪ لوگوں نے کہاکہ وہ جس شہر یا علاقے میں رہتے ہیں وہاں سے تعلق اور ثقافت پر انہیں فخر ہے۔
27٪لوگوں نے کہاکہ وہ اس بارے میں احساس کمتری کا شکار ہیں کہ انکا تعلق لاہور سے نہیں ہے۔

یہ تھیں وہ سب اہم معلومات جو ہم سب نے انتہائی کے بعد محنت کے حاصل کیں۔ آخر میں میں سب سے پہلے مس سمرین کا شکریہ ادا کروں گا جن کی رہنمائی اور بھرپور مدد کی وجہ سے ہمیں لوگوں کےمسائل اور انکی رائے جاننے کا موقع ملا۔ اور اپنے گروپ کے باقی تین ممبران کا بھی شکرگزار ہوں جن کی محنت، اتفاق اور تنظیم کی وجہ سے ہم سب نے نہایت خوشی اور دل لگی سے یہ سارا ریسرچ ورق مکمل کیا۔
سب سے آخر میں میں ان مسائل کے حل کی طرف توجہ دلانا چاہوں گاجن کی وجہ سے دوسرے شہر سے آنے والا یہ نہ سوچے کہ میں اپنے شہر سے دور جا رہا ہوں جہاں میرے ساتھ نجانے کیا سلوک کیا جائے گا۔ بلکہ ضرورت  ہے کہ ہر آنے والے کے ساتھ پیار، محبت اور خلوص سے پیش آیا جائے۔ تاکہ لاہور آنے والا یہ سمجھے کہ میں کسی دوسرے شہر میں نہیں بلکہ اپنے گھر سے اپنے گھر تک جا رہا ہوں۔




2 comments: